*سیلاب کے کٹھن حالات اور حکومتی اقدامات*
*تحریر:۔اخترمنگی محکمہ انفارمیشن نصیرآباد ڈویژن*
سال2022ءء کا سیلاب نصیرآباد ڈویژن کا بد ترین سیلاب ثابت ہوا جس نے کئی قیمتی انسانی جانیں ضائع کیں ہزاروں مال مویشیوں سیلاب میں بہہ گئے اور بے رحم سیلاب نے لوگوں کے گھر اجاڑ دیئے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو بے گھر کر دیا سینکڑوں گھر ملیا میٹ کردئیے ان گھروں کے نشانات صفحہ ہستی سے مٹا دیئے نصیرآباد ڈویژن میں سیلا ب کے آنے کی اصل وجہ نصیرآباد ڈیژن بالائی علاقوں کے ٹیل میں واقع ہے اس لئے کوہ سلیمان۔ گھگی ریور ڈیم۔دریائے بولان۔دریائے مولاسے لاکھوں کیوسک سیلابی ریلوں کی گزرگاہ نصیرآباد ڈویژن میں یہاں سے گزرنے والے سیلابی ریلے تباہی مچانے کے بعد سندھ میں داخل ہوجاتے ہیں ڈیرہ مراد جمالی سٹی سمیت دیگر اضلاع کے کثیر آبادی والے علاقوں کو بچانے کے لیے ضلعی و ڈیژنل انتظامیہ سمیت منتخب اراکین صوبائی اسمبلی نے سر توڑ محنت کی مگر کچھ علاقے سیلاب کی زد سے نہ بچ سکے ڈیرہ مراد جمالی سٹی سے گزرنے والی پٹ فیڈر کینال میں حد سے زیادہ پانی کی آمد کی وجہ سے شہر پر خطرہ منڈلانے لگا تھا محکمہ ایریگیشن کے صوبائی وزیر حاجی محمد خان لہڑی،صوبائی وزیر ریونیو میر سکندر خان عمرانی ایف سی کے کرنل احمد خان اس وقت کے کمشنر نصیرآباد ڈویژن فتح خان خجک سمیت دیگر انتظامیہ شہر کو بچانے کے لیئے ہر ممکن اقدامات کرتے رہے سیلاب کا خطرہ اتنا زیادہ تھا کہ کسی بھی جگہ شگاف لگنے کا خطرہ زیادہ تھا بھنڈ محلہ،ابڑو محلہ،ایف سی کیمپ اور بیدار پل کے مقام پرممکنہ سیلاب کا خطرہ نظرآ رہا تھا لوگوں میں خوف کا یہ عالم تھاکہ لوگوں کو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا جیسے قیامت صغریٰ کا منظر تھا لگاتارکئی دنوں سے جاری مسلہ دھاربارشوں کے غضب سے لوگ ابھی سنبھلے ہی نہیں تھے کہ سیلاب کا خطرہ لٹکتی تلوار کی مانندسامنے کھڑا تھا انتظامیہ کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ ڈیرہ مرادجمالی شہر کو خطرہ ہے لوگ محفوظ مقام پر منتقل ہوجائیں ان حالات میں لوگوں کیلئے اپنا گھر بار چھوڑ کر نکلنا ناممکن عمل تھا لگاتارجاری رہنے والی بارشوں نے عوام کے دل ودماغ میں ایک نہ ختم ہونے والا خوف طاری کردیا تھا ڈیرہ مراد جمالی کو نصیرآباد ڈویژن کا ڈویژنل ہیڈ کوآرٹر شہر ہونے کا درجہ بھی حاصل ہے اس لئے حکومت انتظامیہ اور پاک آرمی کیلئے یہ ایک کڑا امتحان تھا کہ کس طرح ڈویژنل ہیڈکوآرٹرشہر کو خطرے سے محفوظ رکھا جائے خدانخواستہ ڈیرہ مرادجمالی شہر میں سیلاب آ بھی جاتا تو اس سیلاب سے ڈیرہ اللہ یار سٹی روجھان جمالی اور اوستہ محمد سٹیز نہ بچ پاتے اور وہ تباہی رونما ہوتی جس کے متعلق تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا صوبائی وزرا ء حاجی محمد خان لہڑی،میر سکندر خان عمرانی،ایف سی،پاک آرمی ضلعی اور ڈویژنل انتظامیہ لگاتار تین چار روز تک پٹ فیڈرکینال کی پشتوں پر کام کی نگرانی کرتے اور محکمہ ایریگیشن ،محکمہ ذرعی انجینئرنگ کی مشینری کے کام جائزہ لیتے رہتے ان ہنگامی حالات میں محکمہ ایریگیشن کے انجینئرز نے ایس ای ایریگیشن عبدالحمید مینگل کی نگرانی میں بھاری مشینری کے ذریعے وہ خدمات سرانجام دیں جو کبھی بھلائی نہیں جاسکتی عملہ ساری رات مشینری کے ذریعے کام میں مصروف عمل رہا بھاری مشینری کے ذریعے کینال کے کمزورحصوں کو پر کیا جاتا الحمداللہ حکومت اور انتظامیہ کی کڑی محنت اور جدوجہد کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے ڈیرہ مرادجمالی شہر کے اوپر منڈلانے والے سیلاب کے خطرے کو دورکردیا مگر دوسری جانب بارشوں نے اپنی طرف سے تباہی مچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بڑی تعداد میں لوگوں کے گھر زمین بوس ہوگئے چھتوں کے گرنے کی وجہ سے لوگوں کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا
(جاری ہے)
ان کڑے حالات میں لوگوں تک سہولیات کی فراہمی میں حکومت کی جانب سے بروقت اقدامات کرنا شروع کردیئے گئے ٹینٹ راشن سمیت دیگر اشیاء خوردونوش کی فراہمی کا تسلسل شروع کردیا گیامتاثرین میں تیار کھانے اور دیگر ضروری اشیاء کی فراہمی کیلئے اقدامات کو حتمی شکل دی گئی امداد کا سلسلہ جاری ہی تھاکہ دریائے بولان میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے نصیرآباد ڈویژن اوراندرون بلوچستان سے ملانے والی پنجرہ پل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور تقریبا سترہ میٹر اونچی پل کو سیلابی پانی بہاکراپنے ساتھ لے گیا اس طرح نصیرآباد ڈویژن کا اندرون بلوچستان سے ملانے والا آسان راستہ منقطع ہوگیا مگروزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو چیف سیکریٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی نے متاثرین تک ایمرجنسی حالات میں ہیلی کاپٹرز کے ذریعے خوراک کی ترسیل کا عمل شروع کروایا ان مشکل حالات میں پاک آرمی کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں جنہوں نے دن رات محنت کرکے متاثرین کو ریسکیوکیا حتیٰ کہ ریسکیوکے عمل میں گلہ بانی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے جانوروں کوبھی محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا سیلاب متاثرین کی امداد اور ریسکیو کے عمل میں ہماری قوم کے ہیروز نے جام شہادت بھی نوش کی کور کمانڈر بلوچستان لیفٹننٹ جرنل سرفراز علی،ڈائریکٹر جنرل پاکستان کوسٹ گارڈز بریگیڈئیر امجد،سی سی انجینئرز 12کور بریگیڈئر خالد ، پائلٹ میجر سعید،کوپائلٹ میجر طلحہ،اور کریوچیف نائک مدثر عوام کی خدمت کرتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملے مجھے کورکمانڈربلوچستان شہیدسرفراز علی کے وہ الفاظ یاد ہیں کہ انہوں نے کیڈٹ کالج اوستہ محمد میں پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقع پر علاقہ مکینوں سے خطاب کے دروان کہے تھے کہ میں نے اتنا عرصہ بلوچستان میں اپنی خدمات سرانجام دیں ہیں لگتا ہے کہ میں ریٹائرڈ بھی بلوچستان سے ہوجاؤں گا، بلوچستان کی عوام شہید کورکمانڈربلوچستان کی خدمات کبھی بھی نہیں بھلا سکے گی جنہوں نے اپنی زندگی لوگوں کی خدمت پر ہی وقف کردی اس مرتبہ سیلاب نے ہمیں وہ زخم دیئے ہیں جو مدتوں تک پر نہیں ہوسکتے ہیں کمشنر نصیرآباد ڈویژن بشیراحمد بنگلزئی کے مطابق اس وقت تک نصیر آباد ڈویژن کے پانچوں اضلاع میں60کے قریب قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں نصیرآبا دڈویژن میں سیلاب سے اندرون بلوچستان کی نسبت کم انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں جس کی وجہ ڈویژنل اور ضلعی انتظامیہ کی بہتر حکمت عملی ہے ریڈالرٹ جاری ہونے کے بعد ایک بہتر حکمت عملی کی بدولت لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا اگر اقدامات نہیں کئے جاتے تو سینکڑوں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہونے کا قوی امکان تھا کیونکہ بالائی علاقوں سے ڈھلان کی جانب آنے والے سیلابی ریلے سے نقصان کہیں ذیادہ ہوسکتا تھاسیلاب سے نصیرآباد ڈویژن میں ہزاروں گھر زمین بوس ہو گئے ہزاروں گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ایک اندازے کے مطابق چالیس ہزار سے زائد مال مویشی بھی سیلاب سے ہلاک ہو گئے سیلاب کی وجہ سے ڈویژن بھر میں ایک سو واٹر سپلائی اسکیمات متاثر ہوئیں سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع صحبت پور اور نصیرآباد ہیں اب تک نصیرآباد ڈویژن میں ڈھائی لاکھ کے قریب مریضوں کا علاج معالجہ کیا گیا ہے اور انہیں ادویات فراہم کی گئی سیلاب کی وجہ سے مچھروں کی بہتات سے ڈویژن بھرمیں ملیریاکی وباء پھیل گئی جس کی روک تھام کیلئے تمام اضلاع کی انتظامیہ نے محکمہ صحت کے تعاون سے اقدامات کئے پی ڈی ایم اے کی جانب سے بھجوائی گئی مچھر دانیاں سیلاب متاثرین میں تقسیم کی گئیں سیلاب کے بعد ہیضہ کالرہ، اسکن ڈیزیز،ملیریاسمیت دیگر وبائی امراض کو قابوپانے کیلئے بے حساب میڈیکل کیمپس قائم کئے گئے جن علاقوں میں عوام کو طبی سہولیات کی فراہمی میں مشکلات درپیش آرہی تھی تو ضلعی انتظامیہ موبائل وین کے ذریعے بھی ان متاثرین کے ازالے کیلئے اقدامات کررہی تھی جبکہ سیلاب متاثرین کے جانوروں کو بھی وبائی امراض سے بچانے کیلئے لائیو سٹاک کے کیمپس قائم کئے گئے
(جاری ہے)
اسی طرح ڈپٹی کمشنر نصیرآباد عائشہ زہری نے چیف سیکریٹری بلوچستان کے احکامات کی روشنی میں ضلع نصیرآباد کے ان علاقوں تک راشن ٹینٹ،کھجور،پانی کی بوتلیں مچھردانیاں منصفانہ انداز میں تقسیم کی گئیں جوکہ لائق تحسین اقدامات ہیں منصفانہ تقسیم کے عمل کو عوام کی جانب سے بے حدسراہا گیا لوگوں کی خدمات کا یہ تسلسل ڈپٹی کمشنرصحبت پور کیپٹن ریٹائرڈ جمیل احمد بلوچ،ڈپٹی کمشنر جھل مگسی فلائٹ لیفٹننٹ یاسرحسین سمیت ڈویژن کے دیگر اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے بھی جاری رکھے ہوئے ہیں جو تاحال جاری ہے حکومت بلوچستان نے سیلاب متاثرین کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ کئی این جی اوز سیکٹرکو بھی عوام کی امدادکرنے کی اپیل کی اور لاکھوں لوگوں کو این جی اوز کے ذریعے ٹینٹ ،راشن، اشیاء خوردو نوش ،ہائی جن کٹس،سمیت دیگر ضروری اشیاء کی فراہمی کے لئے عملی طورپراقدامات کئے جن کی فراہمی کے بعد سیلاب متاثرین کی مشکلات میں واضح طورپر کمی واقع ہوئی حکومت اور این جی اوزکی جانب سے اب بھی سیلاب متاثرین کی خدمت کرنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے چیف سیکریٹری عبدالعزیز عقیلی کے احکامات پر پہلی مرتبہ نصیرآباد ڈویژن کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں انڈرٹرینگ اسسٹنٹ کمشنرز تعینات کئے گئے تاکہ حکومتی امداد بروقت متاثرین تک پہنچے اس اقدام سے تمام ڈپٹی کمشنرز کے امور مزید سہل ہوگئے کیونکہ اسسٹنٹ کمشنرزکو مختلف یونین اور تحصیلوں کی سطح پر کام کی ذمہ داریاں سونپی گئیں وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجونے سیلاب متاثرین کے نقصانات کے جائزے کیلئے صوبے بھرمیں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کیلئے کمیٹیاں تشکیل دینے کے احکامات دئیے نصیرآباد ڈویژن میں تقریباً سروے کا عمل مکمل کرلیا ہے اور ہونے والے نقصانات کی رپورٹ حکام بالاکا ارسال کی جارہی ہے نصیرآباد ڈویژن میں سروے کے عمل کو شفاف بنانے کیلئے سروے کی ٹیم پٹواری،ایف سی ،پی ڈی ایم اے کے نمائندوں پر مشتمل ہیں حالیہ سیلاب صوبے بھرمیں تباہی مچادی صوبے کے 34اضلاع میں سے 32اضلاع سیلاب سے متاثرہوئے ان اضلاع میں سیلاب متاثرین کیلئے موجودہ حکومت نے ہر ممکن اقدامات کو یقینی بنایا جو قابل ستائش ہیں وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو کی ہدایت پر صوبائی وزرا، صوبائی سیکریٹری نے تمام سیلاب ذدہ علاقوں کو دورہ کرتے اور سیلاب متاثرین کے مسائل حل کرنے کے لیے اقدامات کرتے۔اس سے قبل کچھ علاقوں میں قدرتی آفات آتی تھی جنہیں حل کرنے کے لیے حکومت کو پریشانی کا سامنا کرنا نہیں پڑتا تھا مگر اس مرتبہ تقریباً صوبے بھر میں سیلاب نے تباہی مچائی مگر حکومت نے عوام کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی 32 اضلاع کے سیلاب متاثرین میں امدادی سامان فراہم کرنے اور متاثرین کی بحالی کے لیے بروقت اقدامات کرنا حکومت اور پی ڈی ایم اے کی عوام دوست پالیسیوں کا مظہر ہے اس کے ساتھ ساتھ حکومت کیلئے متاثرہ علاقوں میں زمینی راستوں کی بحالی ایک کڑاامتحان تھاتین مرتبہ آنے والے لاکھوں کیوسک سیلابی ریلوں نے ڈویژن بھرکے انفرااسٹرکچرکو بری طرح متاثرہ کرکے تہس نہس کردیا تھا جسے پورا کرنے کیلئے محکمہ بی اینڈ آر کے انجینئرز نے ہر ممکن اقدامات کئے اور پہلے عارضی بنیادوں پر تمام سڑکیں بحال کی گئیں روڈو کی بحالی کے بدولت سیلاب متاثرین تک ٹینٹ،راشن،اور دیگر اشیاء خودونوش کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا اب سیلاب متاثرین کی مکمل بحالی اور انہیں اپنے پاؤں پرکھڑا کرنے کیلئے اقدامات کرنا وقت کی ضرورت ہے سیلاب کی دو آفتیں ہوتی ہیں ایک وہ جو سیلاب اپنے ساتھ لاتا ہے اور سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے دوسری آفت یہ کہ سیلابی ریلہ گزرنے کے بعد وہ زخم دے جاتا ہے جس کی نشان عرصہ دراز تک رہے ہیں سیلاب گزرجانے کے بعد اب سیلاب متاثرین کی مکمل بحالی اورانہیں پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑاکرناکسی چیلنج سے کم نہیں ہے جسے پورا کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے حکومت سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے ہر ممکن اقدامات کویقینی بنارہی ہے کسانوں میں مفت گندم کا بیج تقسیم کرنا ایک خوش آئند اقدم ہے اس اقدام سے کسانوں کو اپنے پاؤں پرکھڑا کیا جاسکتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ سیلاب متاثرین کے گھروں کی تعمیرات کروانا یا انہیں معاوضہ دینے کیلئے بھی سیلاب متاثرین کی منشاایک اہم جزو ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ سیلاب متاثرین کوہونے والے نقصانات کے ازالے کے لئے متاثرین سے مشاورت ضرور کریں تاکہ ایک صحیح سمت میں تعمیراتی عمل کا آغاز کیا جاسکے باہمی مشاورت سے سیلاب متاثرین کو درپیش مشکلات سے نجات مل سکے ۔کمشنر نصیرآبادڈویژن بشیراحمد بنگلزئی کی جانب سے سیلاب متاثرین کی خدمت کرنے والی تمام این جی اوز سے گزارش کی گئی کہ سیلاب متاثرین میں راشن کی فراہمی کے بجائے سیلاب متاثرین کو گھر بنادیئے جائیں تاکہ ان کے اجڑے ہوئے آشیانے پھر سے تیار ہوسکیں کمشنر نصیرآبادکی جانب بنانے کی تجویز انتہائی اہمیت کی حامل ہے اس سے سیلاب متاثرین کے مسائل حل ہونے ساتھ ساتھ سیلاب متاثرین کے اجڑے ہوئے آشیانے پھر سے جوڑے جاسکتے ہیں اور وہ ایک نئی زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں۔
*اخترمنگی آرٹیکل رائٹرمحکمہ انفارمیشن نصیرآباد ڈویژن*
