مریم حنا
تحریر
ہم جس دور میں جی رہے ہیں، وہ "مصنوعی ذہانت" یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) کا دور ہے۔ یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو نہ صرف سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ انسانوں کے بہت سے کاموں کو خودکار طور پر سرانجام دینے لگی ہے۔ دفاتر میں ڈیٹا اینٹری سے لے کر، کوڈنگ، گرافکس، تجزیے، ترجمے اور یہاں تک کہ تحریری مواد لکھنے کے کام بھی اب AI کے ذریعے ممکن ہو چکے ہیں۔
ایک عام انسان کے لیے شاید یہ محض ترقی کی ایک اور منزل ہو، مگر اس کے پسِ پردہ ایک کربناک کہانی بھی چھپی ہے— ان بے شمار ہنرمندوں کی، جو دن رات محنت کر کے اس انڈسٹری کو پروان چڑھاتے رہے اور آج بے روزگاری کی چکی میں پسنے پر مجبور ہیں۔
ہمارے گھر کی مثال ہی لے لیجیے۔ میرا چھوٹا بھائی جو 2011 میں ماسٹرز مکمل کر کے آئی ٹی انڈسٹری سے وابستہ ہوا، پچھلے ایک سال سے نوکری کے لیے در بدر ہے۔ کسی کمپنی میں ایک ماہ کام کرتا ہے تو کہیں دو ماہ بعد جواب مل جاتا ہے: "ہمیں آپ کی خدمات کی ضرورت نہیں رہی۔"
وہ ہر ایک سے اپنی پریشانی کا ذکر نہیں کرتا، صبر کے دامن کو تھامے ہوئے ہے، مگر ایک بہن تو دل کی دھڑکنوں سے بھائی کا حال جان لیتی ہے۔ جولائی میں ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ پھر کسی مشکل سے گزر رہا ہے۔
میرے بڑے بھائی بھی اسی شعبے سے وابستہ ہیں۔ اگرچہ ان کی فیلڈ قدرے مختلف ہے، مگر جب آج ان کا وائس میسج آیا کہ "امی سے ذکر نہ کرنا، میری جاب ختم ہو گئی ہے" — تو میرے قدموں تلے زمین نکل گئی۔ اس پیغام میں جو دبے لفظوں میں بے بسی، خاموشی اور فکر تھی، اس نے میرے دل کو چیر کر رکھ دیا۔
جب ایک سوال کیا گیا کہ آخر کیوں؟ تو کمپنی کی طرف سے یہی جواب آیا: "ہمیں اب آپ جیسے کارکنان کی ضرورت نہیں، کیونکہ AI آپ کا کام زیادہ تیزی، درستگی اور کم لاگت میں کر سکتا ہے۔"
یہ کیسا انقلاب ہے جو انسانوں کو پیچھے دھکیل رہا ہے؟
کیا ٹیکنالوجی کا مطلب انسان کی جگہ لینا ہے؟
کیا ہم نے یہ سوچ کر ترقی کی تھی کہ کل خود ہماری اولاد، ہمارے بہن بھائی، ہمارے دوست روزگار کی تلاش میں خوار ہوں گے؟
یہ صرف میرے گھر کی کہانی نہیں، ہزاروں گھروں کا نوحہ ہے۔ لاکھوں ہنر مند، محنتی، تعلیم یافتہ نوجوان، جو برسوں کی جدوجہد کے بعد اس مقام پر پہنچے تھے، آج بے یار و مددگار ہیں۔ AI انقلابی ضرور ہے، مگر یہ انسانی احساسات، ضرورتوں اور گھریلو ذمہ داریوں کو نہیں سمجھتا۔
ہمیں بطور قوم، بطور معاشرہ اور بطور انسان یہ سوچنا ہوگا کہ ٹیکنالوجی کا استعمال انسانیت کی خدمت کے لیے ہو، نہ کہ اسے روندنے کے لیے۔ حکومتوں، کمپنیوں اور پالیسی ساز اداروں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر AI آ بھی گیا ہے تو انسانی وسائل کو یکسر نظر انداز کرنا نہ صرف ظلم ہے بلکہ مستقبل میں بہت بڑے معاشی و سماجی بحران کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
جہاں ایک طرف ہمیں اپنی نوجوان نسل کو نئے اسکلز، AI کے ساتھ کام کرنے کی تربیت دینی ہے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ ہر انسان کو اس کا حقِ روزگار میسر ہو۔ ہمیں ایسے نظام ترتیب دینے ہوں گے جہاں انسان اور AI ساتھ ساتھ کام کریں، نہ کہ ایک دوسرے کے متبادل بنیں۔
آخر میں بس اتنا کہوں گی:
ترقی ضروری ہے، مگر انسانیت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔